تحریر : مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کی اس بات میں حقیقت کی گہرائی پوشیدہ ہے کہ صہیونی ریاست کی مسلسل سامراجی سرپرستی نے نہ صرف فلسطین بلکہ پورے خطے کا امن تباہ کر دیا ہے۔
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ اور اس کے بعد بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی، عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ فلسطینی بچوں، خواتین اور بزرگوں کی زندگیاں جو اس ظلم کا شکار ہیں، ان کی داستانیں دل دہلا دینے والی ہیں، مگر اس کے باوجود عالمی سطح پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ قائد ملت جعفریہ کا یہ پیغام ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ دنیا کا امن حقیقت میں داؤ پر لگا ہوا ہے اور اگر ان مظالم پر آواز نہ اٹھائی گئی تو یہ آگ کبھی بھی صرف ایک علاقے تک محدود نہیں رہے گی۔
صہیونی ریاست کے اقدامات کو محض فلسطین کی حد تک محدود سمجھنا غلطی ہوگی۔ اس نے لبنان اور شام میں بھی اپنی توسیع پسندانہ سوچ کے تحت وہ اقدامات اٹھائے ہیں جو ظلم اور بربریت کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ ان ممالک کے عوام کو گھروں سے بے گھر کیا جا رہا ہے، زندگیاں برباد کی جا رہی ہیں اور عالمی قوانین کو پامال کیا جا رہا ہے۔ قائد ملت جعفریہ کے الفاظ ان مظالم کو اس حقیقت کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ یہ غاصبانہ طاقتیں عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ سامراجی طاقتوں کی حمایت اور پشت پناہی سے، یہ صہیونی ریاست اس خطے میں دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے اور اس سے دنیا کو یہ پیغام ملتا ہے کہ طاقت اور ظلم کی کوئی حد نہیں۔
علامہ ساجد نقوی کی بات کہ "دنیا ہوش کے ناخن لے" دراصل عالمی برادری کے لیے ایک انتباہ ہے کہ یہ وقت بے حسی کا نہیں۔ اگر سامراج اور اس کے معاونین کو لگام نہ دی گئی تو دنیا کا ہر شخص اس کے تباہ کن اثرات کا شکار ہو گا۔ اقوام متحدہ، جو امن کے قیام کا دعویدار ہے، اس ظلم پر خاموش کیوں ہے؟ اگر عالمی برادری واقعی امن چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ ان صہیونی مظالم کے خلاف متحد ہو کر کاروائی کرے۔ ایسی کاروائی نہ صرف فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور دنیا کے امن کے لیے لازمی ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور عالمی برادری کو جگائیں تاکہ وہ انصاف، امن اور انسانیت کے حق میں کھڑی ہو۔ عالمی سطح پر اس مسئلے کو ترجیح دینا اور عملی اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ورنہ، یہ ظلم کی آگ پھیلتی رہے گی، اور ہم سب اس کے نتیجے میں ہونے والے تباہی کے ذمہ دار ہوں گے۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ سامراج اور صہیونی ریاست کا یہ گٹھ جوڑ نہ صرف خطے کی عوام بلکہ عالمی سطح پر امن کے اصولوں کے لیے بھی چیلنج بن چکا ہے۔ جب انسانیت کے اصولوں کو پامال کیا جائے، جب بین الاقوامی قوانین کو توڑ کر مظلوموں کے حقوق غضب کیے جائیں، تو اس کے اثرات دنیا کے کسی ایک کونے تک محدود نہیں رہتے۔ یہ بربریت ایک ایسا پیغام ہے جو کہتا ہے کہ اگر آج کسی کے حقوق پامال کیے جا سکتے ہیں تو کل یہ کسی اور کی باری بھی آسکتی ہے۔ علامہ ساجد نقوی کی تنبیہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ یہ وقت محض بیانات یا رسمی قراردادوں کا نہیں، بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔
عالمی برادری کا طویل عرصے سے اختیار کردہ خاموش رویہ بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ فلسطینی عوام، جو کئی دہائیوں سے اپنی آزادی اور خودمختاری کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں، ان کے لیے اگر ہم نے آواز نہ اٹھائی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ دنیا کے امن پسند اور باضمیر انسانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صہیونی ریاست کی حمایت کا مطلب دراصل ظالم کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا انسانیت کا معیار یہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے ان مظلوموں کو بھلا دیں؟
علاوہ ازیں، اگر اسلامی ممالک متحد ہو کر ان مظالم کے خلاف کھڑے ہوں تو عالمی سطح پر اس اتحاد کا ایک زبردست پیغام جائے گا۔ یہ اتحاد نہ صرف فلسطینی عوام کے حق کے لیے ہوگا بلکہ دنیا بھر میں ان مظلوموں کے حق میں ہوگا جنہیں سامراجی نظام نے کبھی اپنے مفادات، کبھی اپنے مفروضات اور کبھی اپنی غرض کی وجہ سے نظر انداز کر دیا۔ اس موقع پر علامہ ساجد نقوی کا پیغام ایک ایسا عزم ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنے ضمیر کے مطابق، حق اور انصاف کے اصولوں کے مطابق کھڑا ہونا چاہیے۔
آخر کار، یہ بات واضح ہے کہ اگر ان سامراجی طاقتوں کو روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ان کے مظالم اور ظلم کی حد کبھی محدود نہیں ہوگی۔ ہمیں بیدار ہونا ہوگا، یہ شعور دلانا ہوگا کہ ظالم کو لگام دینا اب ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے، تاکہ آنے والی نسلیں اس ظلم سے آزاد ماحول میں سانس لے سکیں۔ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر مسلمان ممالک، اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہوں تاکہ اس دنیا کو امن اور انصاف کا گہوارہ بنایا جا سکے۔